Breaking News
recent

آسٹریا کا ہٹلر کی جائے پیدائش کو’قبضے میں لینے کا ارادہ‘

اس گھر کو کئی سالوں تک معزور افراد کے مرکز کے طور پر استعمال کیا جاتا رہا
اس گھر کو کئی سالوں تک معزور افراد کے مرکز کے طور پر استعمال کیا جاتا رہا

آسٹریا کی حکومت کا کہنا ہے کہ وہ جرمن آمر ایڈولف ہٹلر کی جائِے پیدائش کو اپنے قبضے میں لینے کا ارادہ رکھتی ہے کیونکہ وہ گھر ہٹلر کے چاہنے والےنازیوں کی توجہ کا بنیادی مرکز بنتا جا رہا ہے۔
حکام کا کہنا ہے کہ یہ فیصلہ کئی سالوں تک اس بات پر سوچ بچار کے بعد کیا گیا ہے کہ کیسے نیو نازیوں کی اس عمارت میں دلچسپی سے روکا جا سکتا ہے۔
ایڈولف ہٹلر قصبے براناؤ ام ان کے اس گھر میں اپریل سنہ 1889 میں پیدا ہوئے تھے۔
اس پراپرٹی کو سنہ 1972 سے حکومت نے اس کے اصل مالک سے لیز پر حاصل کر رکھا تھا اور اسے کئی سالوں تک معزور افراد کے مرکز کے طور پر استعمال کیا جاتا رہا ہے۔
تاہم 2011 میں اس گھر کو حکومت اور اس کے مالک گیرلینڈ پومر کے درمیان تنازع کی وجہ سے خالی کروا دیا گیا تھا۔ گیرلینڈ پومر نے اس گھر کی مرمت کی اجازت دینے سے انکار کر دیا تھا۔
خبر رساں ادارے اے ایف پی سے بات کرتے ہوئے آسٹریا کی وزارت داخلہ کے ترجمان کارل ہینز گرنڈبوئک نے بتایا کہ ’اس نئے منصوبے میں سرکار کی جانب سے اس گھر کی مالک کو معاوضے کی پیش کش بھی شامل ہے۔‘
کارل ہینز گرنڈبوئک نےمزید کہا کہ ’اس وقت ہم ایک ایسے قانون کو بنانے کا جائزہ لے رہے ہیں جس کے تحت اس جائیداد کی ملکیت کو تبدیل کر کے جمہوریہ آسٹریا کو منتقل کیا جا سکے۔‘
’کئی سالوں بعد ہم اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ اس عمارت کو نازی ہمدردوں سے روکنے کے لیے قبضہ کرنا ہی واحد راستہ ہے۔‘
تاہم انھوں نے یہ نہیں بتایا کہ اس جائیداد کو حاصل کرنے کے بعد حکومت اس کے ساتھ کیا کرے گی۔
اس گھر پر کوئی نشان موجود نہیں ہے۔ جس سے اس کے ماضی کا پتہ چلتا ہو۔ البتہ اس عمارت کے باہر ایک پتھر چسپاں ہے جس پر تحریر ہے: ’لاکھوں مردہ افراد کی یاد میں، اب دوبارہ فاشزم نہیں۔‘ تاہم اس پر کہیں بھی ہٹلر کا نام درج نہیں ہے۔
ایڈولف ہٹلر کے اس گھر کو منہدم کرنے کا بھی کہا جا رہا ہے۔ایک روسی رکن پارلیمان نے اس گھر کو خرید کر تباہ کرنے کی پیش کش بھی کی ہے۔
ہٹلر نے نازی جرمنی پر سنہ 1933 سے 1945 میں دوسری جنگ عظیم کے اختتام پر اپنی موت تک حکومت کی۔



Abdullah Naveed

Abdullah Naveed

No comments:

Post a Comment

Powered by Blogger.